Bari Pursakon thi zindagi
بڑی پرسکون تھی زندگی ، نیا درد کس نے جگا دیا
کسی بے نیاز نگاہ نے میری وحشتوں کو بڑھا دیا
میرے کم سخن کا یہ حکم تھا ، کہ کلام اُس سے میں کم کروں
میرے ہونٹ ایسے سلے کے پھر میری چپ نے اُس کو رلا دیا
اُسے شعر سننے کا شوق تھا ، مجھے عرضِ حال کا ذوق تھا
اسی ذوق و شوق میں ایک دن ، اُسے دل کا حال سنا دیا
وہ نگاہ کیسی نگاہ تھی ، یہ گریز کیسا گریز ہے
مجھے دیکھ کر بھی نہ دیکھنا ، اِس ادا نے راز بتا دیا
کسی نام سے کسی یاد سے ، میرے دل کی بزم سجی رہی
کبھی یہ چراغ جلا دیا ، کبھی وہ چراغ جلا دیا
No comments:
Post a Comment