تم جو ہنستی ہو تو پھولوں کی ادا لگتی ہو
اور چلتی ہو تو ایک باد صبا لگتی ہو
دو نوں ہاتھوں میں چھپا لیتی ہو اپنا چہرہ
مشرقی حور ہو دلہن کی حیا لگتی ہو
کچھ نہ کہنا میرے کندھے پہ جھکا کہ سر کو
کتنی معصوم ہو تم تصویرِ وفا لگتی ہو
بات کرتی ہو تو ساگر سی کھنک جاتی ہیں
لہر کا گیت ہو کو ئل کی صدا لگتی ہو
کس طرف جاؤ گی زلفوں کے یہ بادل لے کر
آج مچلی ہوئی ساون کی گھٹا لگتی ہو
میں نے محسوس کیا ہے تم سے دو باتیں کر کے
قسم سے تم زمانے میں زمانے سے جدا لگتی ہو
No comments:
Post a Comment