Jis ki Surat Gulab Jaisi
جس کی صورت گلاب جیسی ہے
اس سے دوری عذاب جیسی ہے
کیا پلایا ہے تیری نظروں نے
ساری مستی شراب جیسی ہے
تیرے پیکر میں جو نزاکت ہے
وہ گلوں کے شباب جیسی ہے
تیرے چہرے کی حسن و رعنائی
اک مقدس کتاب جیسی ہے
دوست دل میں میرے تیری چاہت
گرمئی آفتاب جیسی ہے
میری شہرت خلیل گاؤں میں
اک خانہ خراب جیسی ہے
No comments:
Post a Comment